دوستوں اپ کی خدمات میں ایک آپبیتی پیش کر رہی ہوں . میرا نام عرفانہ ہے اور میری عمر اس وقت 19 سال ہے. مگر یہ داستان اس وقت کی ہے جب میں کوئی ** سال کی تھی.. شاید اپ اس اپبتی پر یقین نہ کریں. لیکن جو میں لکھ رہی ہوں وہ حرف با حرف ایک سچی داستان ہے.بس نام تبدیل کر دئیے ہیں .
میں اپنا اور اپنی فمیلی کا تعارف کرا دوں .میرے ابا کا نام ماجد ہے اور ان کی عمر 58 سال ہے. میری امی کا نام راحیلہ ہے اور ان کی اس وقت عمر 32 سال ہے.میری ایک چھوٹی بہن فرزانہ (عمر ١٨سال ) اور چھوٹا بھائی امجد (** سال ) ہے.
ہم راولپنڈی کے پاس چک شہزاد میں رہتے ہیں. میرے والد کی ایک دوکان راجہ بازار میں تھی. جو ہمارے گھر سے کافی دور تھی. اور ابا صبح سویرے جاتے تھے اور رات کو دیر سے گھر واپس اتے تھے. ہم تینوں بہن بھائی ایک ہی اسکول میں پڑھا کرتے تھے. ہمارا گھر راول ڈیم کے پاس تھا اور جب کبھی راول ڈیم میں پانی بھر جاتا تھا تو ڈیم والے ڈیم کے دروازے کھول دیا کرتے تھے اور وہ سارا پانی ہمارے گھر کے پاس والی ندی سے گزرتا تھا. ورنہ وو ندی خشک رہتی تھی اور وہاں گاؤں کے سب لوگ کیھلا کرتے تھے. ہمارا گھر ندی کے ساتھ ایک اونچی جگہ پر تھا. اور اس کے بعد ندی اور اسے آگے کھیت تھے . ہم کوئی امیر نہی تھے بس ایک لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھتے تھے. ہماری امی بوہت خوبصورت تھیں اور ہم سب بہن بھائی بھی اپنی امی کی طرح بوہت خوبصورت تھے .ہمارے گھر میں تین کمرے تھے. ایک اوپر اور دو نیچے . صحن کافی بڑا تھا. اور صحن میں لیٹرین اور کچن تھا.
تو دوستوں اب میں اصل کہانی کی طرف آتی ہوں.اس وقت میں چھوٹی تھی اور میری عمر کوئی ** سال تھی. کے ایک شام ہمارے ابا کے ایک جگری دوست جن کا نام راجہ پرویز تھا وہ ہمارے گھر آے ...ان کا ٹرانسفر چک شہزاد لبورٹری میں ہو گیا تھا اور ابا ان کو اپنے گھر لے آیے. راجہ انکل کی عمر کوئی 48 سال کی تھی. مگر وہ ایک بوہت اچھی شکل اور ہنس مکھ طبیعت کے مالک تھے اور وہ رنڈوے تھے ..پہلے تو پرویز انکل نے ہمارے ساتھ ہمارے گھر میں رہنے سے انکار کیا پر ابا کے پرزور اصرار پر وہ مان گئے . ابا نے ان کو اپر کا کمرہ خالی کروا دیا اور ہم تینوں بہن اور بھائی نیچے شفٹ ہو گئے.
انکل پرویز سے ہم جلدی ہی گھل مل گئے تھے.وہ صبح 8 بجے آفس جاتے تھے اور دوپہر کو 2 بجے واپس اتے تھے. اس کے بعد وہ گھر پر ہی رہتے تھے.ابا تو رات کو دیر سے اتے تھے. اور میں سارا ٹائم انکل کے ساتھ رہتی تھی.. میں تھی تو دس سال کی مگر میں اپنی عمر سے بڑی لگتی تھی. میری بہن فرزانہ اور بھائی امجد بھی قد میں لمبے اور صحتمند تھے.اسی طرح امی بھی بوہت سیککی جسم کی مالک تھیں . ابا اور امی کی عمر میں بوہت فرق تھا. اسی وجہ سے ابا اور امی کے درمیان ازواجی تعلق تقریبن نہ ہونے کے برابر تھا. اسی طرح دن گزرتے رہے اور امی بھی ہماری طرح انکل پرویز سے مانوس ہو گیں .فر ایک دن شام کو انکل پرویز نے امی کو 20000 روپیہ دیے اور بولے ....
انکل.. راحیلہ تم یہ پیسے رکھ لو .. اور ہر مہینے مجھے سے 10000 روپے لے لیا کرو .. لیکن ماجد کو نہ بتانا ..
امی بولیں ... نہی پرویز بھائی ، اپ ہم پر کوئی بھوج نہی ہیں ..
انکل بولے ... میں ناراض ہو جاؤں گا اگر تم نے یہ پیسے نہی رکھے ..
ان کے اصرار پر امی نے پیسے رکھ لیے اور ابا کو نہ بتانے کا وعدہ بھی کر لیا اس کے بعد انکل پرویز نے امی کے لیے اور ہمارے لیے نئی چیزیں لانی شروع کر دیں ..
ایک دن انکل ابا سے بولے کے عرفانہ اب بڑی کلاس میں آ گئی ہے. تم اس کو مرے ساتھ کمرے میں شفٹ کر دو. میں اس کو پڑھا دیا کروں گا. ابا نے خوش ہو کر فورن حامی بھر لی .. میری بھی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہی تھا. اور اس کے بعد میرا پلنگ انکل کے پلنگ ساتھ لگ گیا ..
انکل ایک گھنٹہ مجھے پڑھاتے تھے اور بعد میں میرے ساتھ باتیں کرتے تھے. اور اکثر مجھے سینے سے لگا لیتے تھے..اور بعد میں مجھے سویٹ دیتے تھے. اور کبھی ١٠ روپیہ کا نوٹ .... اور مجھے کہتے تھے کے کسی کو مت بتانا..میں سویٹ اور پیسے کی لالچ میں کس کو نہی بتاتی تھی.پھر ایک رات انہوں مجھے سینے سے لگایا اور پھر میرے چوتڑوں کو خوب دبایا ..اور میرے ممے بھی دباے ... مجھے بھی مزہ آیا بوہت اس لیے میں ان کو نہیں روکی.. کافی دیر تک وہ مجھے دباتے رہے..اور اس کے بعد انہوں نے مجھے ٥٠ روپے دیے ...اب میں خود انکل کے پاس رہنے کے بہانے تلاش کرتی تھی، پر امی کی وجہ سے موقع نہی ملتا تھا.
ایک دن ابا نے بتایا کے وہ لاہور جا رہے ہیں ، امی بھی ان کے ساتھ تیار ہو گیں. ابا بولے کے ہم سب چلتے ہیں. انکل پرویز نے تو آفس کی وجہ سے انکار کر دیا . میرے اسکول کے امتحان تھے.اس لیے میں بھی نہی گئی . ابا،امی،فرزانہ اور امجد صبح ہی بس سے لاہور روانہ ہو گئے.میں اسکول اور انکل آفس چلے گئے ... رات کو جب میں انکل کے پاس سونے گئی تو انہوں نے مجھ کو گلے سے لگا لیا ....اور پیار کرنے لگے .. مجھے یہ سب کچھ اچھا لگ رہا تھا .انکل بوہت سکون سے یہ سب حرکتیں کر رہے تھے..میں اور انکل صوفے پر بیٹھے ہوے تھے.( میں جسمانی طور ایک صحتمند جسم رکھتی تھی.بھرے بھرے گال ،ابھرا ہوا سینہ.باہر کے طرف نکلے ہووے موٹے چوٹر ،گورا رنگ. اور اوپر سے خوبصورت آنکھیں .)
انکل نے مجھے سائیڈ سے لپٹایا ہوا تھا. ان کا ایک ہاتھ میری کمر پر تھا اور دوسرے ہاتھ سے وو میری ایک ران کو سہلا اور دبا رہے تھے..پھر انہوں نے میری سیدھی ٹانگ اٹھا کر اپنے گھٹنوں پر رکھ دی .اب وو مرے چوتڑوں کو بری طرح دبانے لگے ...اور اپنی انگلی میری گندی جگہ (گانڈ ) میں ڈالنے کی کوشش کرنے لگے . مجھے درد ہوا تو میں ان سے بولی ..
میں ... انکل نہ کریں ،بوہت درد ہو رہا ہے.
انکل ... عرفانہ . تم اپنی شلوار اتار دو .. پھر تم کو درد نہی ہو گا .
پھر میں نے اپنی شلوار اتار دی . تو وہ غسل خانے سے ویسلین کی شیشی لے کر آے .اور میری گانڈ اور چوت پر خوب اچھی طرح ویسلین مل دی .پھر دھیرے دھیرے میری چوت پر اپنی انگلی پھرنے لگے ..اور میرے ھونٹوں پر پیار کرنے لگے .میں ایک عجیب سی حالت میں تھی. اور میری نظروں کے سامنے ابا اور امی کی وہ حرکتیں ایک فلم کی طرح آرہی تھیں جو وہ اکثر رات کو کیا کرتے تھے.پھر انکل نے مجھے اپنے گھٹنوں پر الٹا لیٹا لیا اور اپنے ہاتھ کی چھوٹی انگلی میری چوت میں ڈالنے کی کوشش کرنے لگے . میری چوت ویسلین کی وجہ سے بوحت چکنی اور ملاعم ہو گئی تھی.اس لیے مجھے زیادہ درد محسوس نہی ہوا بلکے مزہ آ رہا تھا ...کافی دیر تک وہ میری چوت سے کھیلتے رہے.ان کا لنڈ تن گیا تھا اور میرے پیٹ سے چھب رہا تھا. اب ان کی حالت بھی عجیب سی ہو گیئ تھی. ان کے چہرے پر پسینہ اور سانسوں میں تیزی اور انگلی کی رفتار بھی بڑھ گیئ تھی.
پھر انہوں نے مجھے ہٹایا اور بستر پر لے گئے ....خود پہلے لیٹے اور مجھے کہا .. کے میں ان کے لنڈ کو اپنے منھ میں لے کر چوسوں .....میں ان کے سینے پر بیٹھ گیئ . میرا رخ ان کی ٹانگوں کی طرف تھا.اور میری گنڈ انکل کے منھ کے پاس تھی. پھر میں نے انکل کے لنڈ کو اپنے منھ میں رکھا تو مجھے گھن کی وجہ سے متلی ہونے لگی ..اور میں نے لنڈ پر سے منہ ہٹا لیا .
انکل بولے ... عرفانہ ڈرو نہی، کچھ نہی ہوتا .. شاباش لے لو منہ میں ..
اور میرے سر کو پکڑ کر پھر سے اپنا لنڈ میرے منہ میں ڈال دیا ..اور میں لنڈ کو چوسنے لگی. ان کا لنڈ کافی لمبا اور موٹا تھا. میں صرف ان کے لنڈ کا اپر والا حصّہ چوس رہی تھی. اور وہ میری چوت میں انگلی کر رہے تھے .. اور اپنے منہ سے ہا ہا ہا کی آوازیں نکال رہے تھے..انکل کی انگلی جب میری چوت میں جاتی تھی تو مجھے بوھت مزہ اتا تھا.
ہم کوئی بیس منٹ تک یہی کرتے رہے .. پھر ایک دم میرا منہ کسی گرم گرم چیز سے بھر گیا . میں نے اپنا منہ ہٹانے کی کوشش کی مگر انکل نے میرے سر کو مضبوطی سے انپے لنڈ کی طرف دبایا کے ان کا لنڈ میرے حلق میں جا گسسا .. میرا سانس بند ہونے لگا. اور آنکھیں فٹ گیں ..کوئی تین منٹ کے بعد انہوں نے مجھے چھوڑا تو میری سانس میں سانس آیی ..
میں تیزی سے غسل خانے کی طرف بھگی اور جب شیشے میں دیکھا تو میرا منہ کسی سفید سفید لیس دارملائی جیسی چیز سے بھرا ہوا تھا. میں منہ دھو کر واپس آیی تو انکل اسی حالت میں لیٹے ہووے تھے . اور ان کا لنڈ بھی سفید چیز سے لتھڑا ہوا تھا...
انکل بولے... میری جان عرفانہ تم بوھت اچھی ہو.اب میرے لنڈ کو اپنی زبان سے صاف کر دو ..
تو میں نے بغیر کی حجت کے ان کے لنڈ کو اپنی زبان سے صاف کیا. پھر انکل اٹھ کر غسل خانے میں گئے تو میں نے بھی اپنی شلوار پہن لی. جب انکل واپس آیے تو وو ننگے تھے ..
میں نے پوچھا .. انکل یہ سفید سفید کیا چیز تھی؟
انکل ہنستے ہووے بولے..
جانی اس کو منی کہتے ہیں. تم کو کیسی لگی . تمھارے تو منہ میں گیی تھی.
میں بولی.. انکل کوئی مزہ نہی تھا . پر گرم گرم تھی ...
پھر انکل میرے ساتھ بستر پر لیٹ گئے.رات کافی ہو چوکی تھی. اور مجھے لیٹے ہی نیند آ گیی ..
صبح جب میری آنکھ کھلی تو میں نے دیکھا کے میری شلوار اتری ہوئی تھی اور انکل میرے ساتھ لپٹے ہویے تھے اور ان کا لنڈ میرے چوتڑوں میں تھا ..انہوں نے میری قمیض کے بٹن کھولے ہویے تھے..اور میری چوچیوں کو مسل رہے تھے. مجھے بھی مزہ انے لگا. ان کا لنڈ میری گانڈ کے چھید پر تھا.ان کا لنڈ موٹے ہونے کی وجہ سے میری تنگ گانڈ میں نہی جا رہا تھا اور مجھے بھی تکلیف سی ہو رہی تھی..پھر ایک دم انکل نے میری گردن موڑ کر اپنے منہ کے پاس کر لی اور میرے ہونٹوں کو چوسنے لگے.ساتھ ساتھ ان کے دھکوں کی شدّت میں تیزی آ گئی .ان کی انگلی میری چوت کے اندر تھی.انکل کے منہ سے اف ہاہاہا کی آوازیں نکل رہی تھیں ..پھر مجھے لگا کے میری گانڈ گرم گرم پانی سے بھر گئی ہے .انکل بھی سست ہو گئے تھے .اور مجھ سے الگ ہو کر اپنی آنکھیں بند کیے لیٹے ہوۓ تھے.
میں اٹھ کر غسل خانے گئی اور کموڈ پر بیٹھ کے پیشاب کیا . تو میں نے دیکھا کے میری گانڈ انکل کی منی سے لتھڑی ہوئی تھی . میں نے اپنے اپ کو اچھی طرح پانی سے دھویا ..کپڑے بدلے . اور پھر ناشتہ بنانے نیچے آ گئی ..انکل بھی نہا کر ناشتے کے لیا نیچے آ گئے . ہم دونوں نے ناشتہ کیا ... انکل نے مجھے 500 روپہ کا ایک نوٹ دیا.اور پھر انکل مجھے اسکول چھوڑتے ہووے اپنے دفتر چلے گئے ......میں اسکول میں سارا وقت پچھلی رات کے مطالق سوچتی رہیاور تصور میں اپنی اپ کو انکل کی بیوی کے روپ میں دیکھتی رہی.
دوپہر کو اسکول کے بعد میں گھر پونچھی تو ابا اور امی واپس نہیں آے تھے. میں بیچنی سے انکل کا انتظار کرنے لگی.
انکل 3 بجے دفتر سے آے . وہ بازار سے کھانا بھی لاے تھے . ہم دونوں نے ایک ساتھ کھانا کھایا .اور اس کے بعد کافی دیر تک باتیں کرتے رہے. انکل نے مجھے خوب پیار بھی کیا ..
پھر مجھے امتحان کی تیاری کرانے لگے....شام کو ابا اور سب لوگ واپس آ گئے .....اور اس طرح میرے نہ مکمل پیار کی کہانی ختم ہو گئی.
دوستوں اب مجھے اجازت دیں . اس سلسلے کی بقیہ کہانی اپ کو دوسری قسط میں بتاؤں گی ....
ہم راولپنڈی کے پاس چک شہزاد میں رہتے ہیں. میرے والد کی ایک دوکان راجہ بازار میں تھی. جو ہمارے گھر سے کافی دور تھی. اور ابا صبح سویرے جاتے تھے اور رات کو دیر سے گھر واپس اتے تھے. ہم تینوں بہن بھائی ایک ہی اسکول میں پڑھا کرتے تھے. ہمارا گھر راول ڈیم کے پاس تھا اور جب کبھی راول ڈیم میں پانی بھر جاتا تھا تو ڈیم والے ڈیم کے دروازے کھول دیا کرتے تھے اور وہ سارا پانی ہمارے گھر کے پاس والی ندی سے گزرتا تھا. ورنہ وو ندی خشک رہتی تھی اور وہاں گاؤں کے سب لوگ کیھلا کرتے تھے. ہمارا گھر ندی کے ساتھ ایک اونچی جگہ پر تھا. اور اس کے بعد ندی اور اسے آگے کھیت تھے . ہم کوئی امیر نہی تھے بس ایک لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھتے تھے. ہماری امی بوہت خوبصورت تھیں اور ہم سب بہن بھائی بھی اپنی امی کی طرح بوہت خوبصورت تھے .ہمارے گھر میں تین کمرے تھے. ایک اوپر اور دو نیچے . صحن کافی بڑا تھا. اور صحن میں لیٹرین اور کچن تھا.
تو دوستوں اب میں اصل کہانی کی طرف آتی ہوں.اس وقت میں چھوٹی تھی اور میری عمر کوئی ** سال تھی. کے ایک شام ہمارے ابا کے ایک جگری دوست جن کا نام راجہ پرویز تھا وہ ہمارے گھر آے ...ان کا ٹرانسفر چک شہزاد لبورٹری میں ہو گیا تھا اور ابا ان کو اپنے گھر لے آیے. راجہ انکل کی عمر کوئی 48 سال کی تھی. مگر وہ ایک بوہت اچھی شکل اور ہنس مکھ طبیعت کے مالک تھے اور وہ رنڈوے تھے ..پہلے تو پرویز انکل نے ہمارے ساتھ ہمارے گھر میں رہنے سے انکار کیا پر ابا کے پرزور اصرار پر وہ مان گئے . ابا نے ان کو اپر کا کمرہ خالی کروا دیا اور ہم تینوں بہن اور بھائی نیچے شفٹ ہو گئے.
انکل پرویز سے ہم جلدی ہی گھل مل گئے تھے.وہ صبح 8 بجے آفس جاتے تھے اور دوپہر کو 2 بجے واپس اتے تھے. اس کے بعد وہ گھر پر ہی رہتے تھے.ابا تو رات کو دیر سے اتے تھے. اور میں سارا ٹائم انکل کے ساتھ رہتی تھی.. میں تھی تو دس سال کی مگر میں اپنی عمر سے بڑی لگتی تھی. میری بہن فرزانہ اور بھائی امجد بھی قد میں لمبے اور صحتمند تھے.اسی طرح امی بھی بوہت سیککی جسم کی مالک تھیں . ابا اور امی کی عمر میں بوہت فرق تھا. اسی وجہ سے ابا اور امی کے درمیان ازواجی تعلق تقریبن نہ ہونے کے برابر تھا. اسی طرح دن گزرتے رہے اور امی بھی ہماری طرح انکل پرویز سے مانوس ہو گیں .فر ایک دن شام کو انکل پرویز نے امی کو 20000 روپیہ دیے اور بولے ....
انکل.. راحیلہ تم یہ پیسے رکھ لو .. اور ہر مہینے مجھے سے 10000 روپے لے لیا کرو .. لیکن ماجد کو نہ بتانا ..
امی بولیں ... نہی پرویز بھائی ، اپ ہم پر کوئی بھوج نہی ہیں ..
انکل بولے ... میں ناراض ہو جاؤں گا اگر تم نے یہ پیسے نہی رکھے ..
ان کے اصرار پر امی نے پیسے رکھ لیے اور ابا کو نہ بتانے کا وعدہ بھی کر لیا اس کے بعد انکل پرویز نے امی کے لیے اور ہمارے لیے نئی چیزیں لانی شروع کر دیں ..
ایک دن انکل ابا سے بولے کے عرفانہ اب بڑی کلاس میں آ گئی ہے. تم اس کو مرے ساتھ کمرے میں شفٹ کر دو. میں اس کو پڑھا دیا کروں گا. ابا نے خوش ہو کر فورن حامی بھر لی .. میری بھی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہی تھا. اور اس کے بعد میرا پلنگ انکل کے پلنگ ساتھ لگ گیا ..
انکل ایک گھنٹہ مجھے پڑھاتے تھے اور بعد میں میرے ساتھ باتیں کرتے تھے. اور اکثر مجھے سینے سے لگا لیتے تھے..اور بعد میں مجھے سویٹ دیتے تھے. اور کبھی ١٠ روپیہ کا نوٹ .... اور مجھے کہتے تھے کے کسی کو مت بتانا..میں سویٹ اور پیسے کی لالچ میں کس کو نہی بتاتی تھی.پھر ایک رات انہوں مجھے سینے سے لگایا اور پھر میرے چوتڑوں کو خوب دبایا ..اور میرے ممے بھی دباے ... مجھے بھی مزہ آیا بوہت اس لیے میں ان کو نہیں روکی.. کافی دیر تک وہ مجھے دباتے رہے..اور اس کے بعد انہوں نے مجھے ٥٠ روپے دیے ...اب میں خود انکل کے پاس رہنے کے بہانے تلاش کرتی تھی، پر امی کی وجہ سے موقع نہی ملتا تھا.
ایک دن ابا نے بتایا کے وہ لاہور جا رہے ہیں ، امی بھی ان کے ساتھ تیار ہو گیں. ابا بولے کے ہم سب چلتے ہیں. انکل پرویز نے تو آفس کی وجہ سے انکار کر دیا . میرے اسکول کے امتحان تھے.اس لیے میں بھی نہی گئی . ابا،امی،فرزانہ اور امجد صبح ہی بس سے لاہور روانہ ہو گئے.میں اسکول اور انکل آفس چلے گئے ... رات کو جب میں انکل کے پاس سونے گئی تو انہوں نے مجھ کو گلے سے لگا لیا ....اور پیار کرنے لگے .. مجھے یہ سب کچھ اچھا لگ رہا تھا .انکل بوہت سکون سے یہ سب حرکتیں کر رہے تھے..میں اور انکل صوفے پر بیٹھے ہوے تھے.( میں جسمانی طور ایک صحتمند جسم رکھتی تھی.بھرے بھرے گال ،ابھرا ہوا سینہ.باہر کے طرف نکلے ہووے موٹے چوٹر ،گورا رنگ. اور اوپر سے خوبصورت آنکھیں .)
انکل نے مجھے سائیڈ سے لپٹایا ہوا تھا. ان کا ایک ہاتھ میری کمر پر تھا اور دوسرے ہاتھ سے وو میری ایک ران کو سہلا اور دبا رہے تھے..پھر انہوں نے میری سیدھی ٹانگ اٹھا کر اپنے گھٹنوں پر رکھ دی .اب وو مرے چوتڑوں کو بری طرح دبانے لگے ...اور اپنی انگلی میری گندی جگہ (گانڈ ) میں ڈالنے کی کوشش کرنے لگے . مجھے درد ہوا تو میں ان سے بولی ..
میں ... انکل نہ کریں ،بوہت درد ہو رہا ہے.
انکل ... عرفانہ . تم اپنی شلوار اتار دو .. پھر تم کو درد نہی ہو گا .
پھر میں نے اپنی شلوار اتار دی . تو وہ غسل خانے سے ویسلین کی شیشی لے کر آے .اور میری گانڈ اور چوت پر خوب اچھی طرح ویسلین مل دی .پھر دھیرے دھیرے میری چوت پر اپنی انگلی پھرنے لگے ..اور میرے ھونٹوں پر پیار کرنے لگے .میں ایک عجیب سی حالت میں تھی. اور میری نظروں کے سامنے ابا اور امی کی وہ حرکتیں ایک فلم کی طرح آرہی تھیں جو وہ اکثر رات کو کیا کرتے تھے.پھر انکل نے مجھے اپنے گھٹنوں پر الٹا لیٹا لیا اور اپنے ہاتھ کی چھوٹی انگلی میری چوت میں ڈالنے کی کوشش کرنے لگے . میری چوت ویسلین کی وجہ سے بوحت چکنی اور ملاعم ہو گئی تھی.اس لیے مجھے زیادہ درد محسوس نہی ہوا بلکے مزہ آ رہا تھا ...کافی دیر تک وہ میری چوت سے کھیلتے رہے.ان کا لنڈ تن گیا تھا اور میرے پیٹ سے چھب رہا تھا. اب ان کی حالت بھی عجیب سی ہو گیئ تھی. ان کے چہرے پر پسینہ اور سانسوں میں تیزی اور انگلی کی رفتار بھی بڑھ گیئ تھی.
پھر انہوں نے مجھے ہٹایا اور بستر پر لے گئے ....خود پہلے لیٹے اور مجھے کہا .. کے میں ان کے لنڈ کو اپنے منھ میں لے کر چوسوں .....میں ان کے سینے پر بیٹھ گیئ . میرا رخ ان کی ٹانگوں کی طرف تھا.اور میری گنڈ انکل کے منھ کے پاس تھی. پھر میں نے انکل کے لنڈ کو اپنے منھ میں رکھا تو مجھے گھن کی وجہ سے متلی ہونے لگی ..اور میں نے لنڈ پر سے منہ ہٹا لیا .
انکل بولے ... عرفانہ ڈرو نہی، کچھ نہی ہوتا .. شاباش لے لو منہ میں ..
اور میرے سر کو پکڑ کر پھر سے اپنا لنڈ میرے منہ میں ڈال دیا ..اور میں لنڈ کو چوسنے لگی. ان کا لنڈ کافی لمبا اور موٹا تھا. میں صرف ان کے لنڈ کا اپر والا حصّہ چوس رہی تھی. اور وہ میری چوت میں انگلی کر رہے تھے .. اور اپنے منہ سے ہا ہا ہا کی آوازیں نکال رہے تھے..انکل کی انگلی جب میری چوت میں جاتی تھی تو مجھے بوھت مزہ اتا تھا.
ہم کوئی بیس منٹ تک یہی کرتے رہے .. پھر ایک دم میرا منہ کسی گرم گرم چیز سے بھر گیا . میں نے اپنا منہ ہٹانے کی کوشش کی مگر انکل نے میرے سر کو مضبوطی سے انپے لنڈ کی طرف دبایا کے ان کا لنڈ میرے حلق میں جا گسسا .. میرا سانس بند ہونے لگا. اور آنکھیں فٹ گیں ..کوئی تین منٹ کے بعد انہوں نے مجھے چھوڑا تو میری سانس میں سانس آیی ..
میں تیزی سے غسل خانے کی طرف بھگی اور جب شیشے میں دیکھا تو میرا منہ کسی سفید سفید لیس دارملائی جیسی چیز سے بھرا ہوا تھا. میں منہ دھو کر واپس آیی تو انکل اسی حالت میں لیٹے ہووے تھے . اور ان کا لنڈ بھی سفید چیز سے لتھڑا ہوا تھا...
انکل بولے... میری جان عرفانہ تم بوھت اچھی ہو.اب میرے لنڈ کو اپنی زبان سے صاف کر دو ..
تو میں نے بغیر کی حجت کے ان کے لنڈ کو اپنی زبان سے صاف کیا. پھر انکل اٹھ کر غسل خانے میں گئے تو میں نے بھی اپنی شلوار پہن لی. جب انکل واپس آیے تو وو ننگے تھے ..
میں نے پوچھا .. انکل یہ سفید سفید کیا چیز تھی؟
انکل ہنستے ہووے بولے..
جانی اس کو منی کہتے ہیں. تم کو کیسی لگی . تمھارے تو منہ میں گیی تھی.
میں بولی.. انکل کوئی مزہ نہی تھا . پر گرم گرم تھی ...
پھر انکل میرے ساتھ بستر پر لیٹ گئے.رات کافی ہو چوکی تھی. اور مجھے لیٹے ہی نیند آ گیی ..
صبح جب میری آنکھ کھلی تو میں نے دیکھا کے میری شلوار اتری ہوئی تھی اور انکل میرے ساتھ لپٹے ہویے تھے اور ان کا لنڈ میرے چوتڑوں میں تھا ..انہوں نے میری قمیض کے بٹن کھولے ہویے تھے..اور میری چوچیوں کو مسل رہے تھے. مجھے بھی مزہ انے لگا. ان کا لنڈ میری گانڈ کے چھید پر تھا.ان کا لنڈ موٹے ہونے کی وجہ سے میری تنگ گانڈ میں نہی جا رہا تھا اور مجھے بھی تکلیف سی ہو رہی تھی..پھر ایک دم انکل نے میری گردن موڑ کر اپنے منہ کے پاس کر لی اور میرے ہونٹوں کو چوسنے لگے.ساتھ ساتھ ان کے دھکوں کی شدّت میں تیزی آ گئی .ان کی انگلی میری چوت کے اندر تھی.انکل کے منہ سے اف ہاہاہا کی آوازیں نکل رہی تھیں ..پھر مجھے لگا کے میری گانڈ گرم گرم پانی سے بھر گئی ہے .انکل بھی سست ہو گئے تھے .اور مجھ سے الگ ہو کر اپنی آنکھیں بند کیے لیٹے ہوۓ تھے.
میں اٹھ کر غسل خانے گئی اور کموڈ پر بیٹھ کے پیشاب کیا . تو میں نے دیکھا کے میری گانڈ انکل کی منی سے لتھڑی ہوئی تھی . میں نے اپنے اپ کو اچھی طرح پانی سے دھویا ..کپڑے بدلے . اور پھر ناشتہ بنانے نیچے آ گئی ..انکل بھی نہا کر ناشتے کے لیا نیچے آ گئے . ہم دونوں نے ناشتہ کیا ... انکل نے مجھے 500 روپہ کا ایک نوٹ دیا.اور پھر انکل مجھے اسکول چھوڑتے ہووے اپنے دفتر چلے گئے ......میں اسکول میں سارا وقت پچھلی رات کے مطالق سوچتی رہیاور تصور میں اپنی اپ کو انکل کی بیوی کے روپ میں دیکھتی رہی.
دوپہر کو اسکول کے بعد میں گھر پونچھی تو ابا اور امی واپس نہیں آے تھے. میں بیچنی سے انکل کا انتظار کرنے لگی.
انکل 3 بجے دفتر سے آے . وہ بازار سے کھانا بھی لاے تھے . ہم دونوں نے ایک ساتھ کھانا کھایا .اور اس کے بعد کافی دیر تک باتیں کرتے رہے. انکل نے مجھے خوب پیار بھی کیا ..
پھر مجھے امتحان کی تیاری کرانے لگے....شام کو ابا اور سب لوگ واپس آ گئے .....اور اس طرح میرے نہ مکمل پیار کی کہانی ختم ہو گئی.
دوستوں اب مجھے اجازت دیں . اس سلسلے کی بقیہ کہانی اپ کو دوسری قسط میں بتاؤں گی ....
Post a Comment